شکیل رشید (ایڈیٹر روزنامہ ممبئی اردو نیوز؍گروپ ایڈیٹر بصیرت آن لائن)
’گجرات فائلس‘ جیسی کتاب لکھ کر مثالی جرأت کامظاہرہ کرنے والی انگریزی زبان کی خاتون صحافی رعنا ایوب کو میں نے موبائل سے ’مبارک باد‘ دینے کی کوشش کی تھی لیکن پتہ چلا کہ موبائل نمبر بدل گیا ہے۔ رعنا ایوب سے تو بات نہیں ہوسکی مگر گھر کے نمبر پر فون کرنے پر ان کے والد ایوب واقف سے بات ہوگئی۔
ایوب واقف سے میری پرانی شناشائی ہے۔
وہ تھے تو مدرس مگر اخباروں میں بھی جزوقتی کام کرتے تھے، ممبئی کے کئی اردو اخباروں سے ان کا تعلق رہا کئی اخبارات ایسے تھے جن میں وہ بھی کام کرتے تھے اور میں بھی۔ ایوب واقف خوش تھے، انہوں نے بتایا کہ ہم سب کی دہلی جانے کی تیاری ہے جہاں ۲۷ مئی کو رعنا کی کتاب کی رونمائی ہونے والی ہے۔ میں نے انہیں مبارک باد دی اور یہ تاکید بھی کہ مبارک باد کا میرا یہ پیغام رعنا ایوب تک پہنچا دیا جائے۔
مبارک بادی رعنا ایوب کا حق ہے۔
اس ملک کے سارے حق پرستوں کو، ان سارے افراد کو جو سرکاری مظالم کے خلاف سینہ سپر رہتے ہیں، سیکولر مزاج افراد اور جمہوریت میں یقین رکھنے والوں کو تو یہ چاہئے ہی کہ رعنا ایوب کو ’گجرات فائلس: اے انا ٹومی آف کَور اَپ‘ جیسی تہلکہ مچانے والی کتاب تحریر کرنے او رملک کے چوٹی کے پبلشروں کی طرف سے اسے چھاپنے سے منع کرنے کے بعد خود شائع کرنے کے لئے مبارک باد دیں، عام لوگوں کو کہیں زیادہ چاہئے کہ وہ رعنا ایوب کو مبارک باد دیں اور ان کی اس کتاب کو ہا تھوں ہاتھ لیں۔ بھلے ہی وہ انگریزی سے واقف نہ ہوں، کتاب کو مقبول بنا کر وہ فاشسٹ نظریات اور ہندو توادی سنگھٹنوں ، فسادیوں اور بے قصوروں کو
فرضی مڈبھیڑوں میں ہلاک کرنے والی پولس کے خلاف اُٹھنے والی اس آواز کو تقویت دیں گے اور دوسروں کو بھی یہ حوصلہ فراہم کریں گے کہ وہ ظلم اور مظالم کے خلاف آواز بلند کریں۔ یہ عام لوگ ہی ہیں جو گجرات میں فسادات کی بھینٹ زیادہ چڑھے ہیں۔ ان کی لاشوں سے کنوئیں پاٹے گئے ہیں۔ انہیں جلایاگیا ہے۔ عصمت دری کرکے ان کے ابھی جنے نہ گئےبچوں کے جنین تلواروں کی نوکوں پر اُچھالے گئے ہیں۔ یہ کتاب عام لوگوں کے لیے زیادہ خاص ہے۔
’گجرات فائلس‘ ایک اہم کتاب ہے، صرف اس لئے نہیں کہ یہ وزیر اعظم نریندر مودی ، بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ اور گجرات فسادات وفرضی مڈبھیڑ وں کا راز فاش کرتی ہے، بلکہ اس لئے بھی کہ یہ کتاب ایک ایسے وقت میں تحریر کی گئی ہے جب زبانوں پر تالے لگائے جارہے ہیں، زبانیں سی جارہی اور قلم کی روشنائی چھینی جارہی ہے۔ جب صحافی اور دانشور بِک رہے ہیں اور اپنے نظریات تبدیل کررہے ہیں۔
کچھ باتیں مسلمانوں سے کرنی ہیں خصوصاً ان مسلمانوں سے جو صاحب حیثیت ہیں۔ رعنا ایوب نے تو خود اپنے دَم پر انگریزی میں یہ کتاب شائع کرادی لیکن یہ کتاب صرف انگریزی داں طبقے کے لئے نہیں ہے، یہ ضروری ہے کہ یہ اردو، ہندی، مراٹھی اور گجراتی وغیرہ میں بھی شائع ہو۔ وہ افراد جو واقعی مظلومین کے تئیں ہمدردی رکھتے ہیں اور اس ملک سے فاشزم کا خاتمہ چاہتے ہیں، ان میں جو صاحب حیثیت ہیں وہ اس کتاب کے ترجمے کا کام کرواسکتے اور اس کی دوسرے زبانوں میں اشاعت کا اہتمام کراسکتے ہیں۔ یہ بڑا کام ہوگا۔ کیا کوئی اردو دوست ایسا ہے جو اس کتاب کا اردو ترجمہ کرواسکے، اس کی اشاعت کا اہتمام کرسکے اور اسے اردو قارئین تک پہنچواگ سکتے تاکہ گجرات کے سچ سے اردو والے بھی واقف ہوسکیں؟ اگر کوئی ہے تو وہ ’گجرات فائلس‘ کو اردو والوں کے سامنے پیش کرنے کی پہل کرے، یہ بڑا کام ہوگا۔